غیر شائستہ تحریر (Impolite Writing)

 یہ تحریر پڑھ کر آپ کو اچھا نہیں لگے گا۔ تھوڑی غیر شائستہ ہے۔ اس لئے میں پیشگی معذرت کرتا ہوں۔ امید ہے آپ درگذر فرمائیں گے۔

ہردلعزیز لیڈر جناب ذوالفقار علی بھٹو عوامی جلسوں میں نوابزادہ نصراللہ خان کو "حقہ ٹوپی"، اصغر خان کو "آلو" اور ائیر مارشل نور خان کو "ٹماٹر" کہہ کر پکارتے تھے۔ مفتی محمود کو وہ جو کہتے تھے، وہ میں یہاں نہیں لکھ سکتا۔ 1988 کی الیکشن مہم کے دوران مسلم لیگ ن کی طرف سے بینظیر اور نصرت بھٹو کی مبینہ فحش تصاویر ہیلی کاپٹرز کے ذریعے حلقوں میں گرائی گئیں۔
بےنظیر بھٹو جب 1993 میں وزیر اعظم بن کر پیلے رنگ کے لباس میں اسمبلی میں آئیں تو نواز شریف نے حقارت سے "ٹیکسی" کہا اور ن لیگیوں نے اونچی آواز سے اس لفظ کی ہوٹنگ شروع کر دی، یہاں تک کہ بی بی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے, جب زرداری جیل میں تھا تو بینظیر ایک دفعہ ان سے ملاقات کے لئے گئیں، اتفاق سے اس دن بھی انہوں نے پیلا سوٹ پہن رکھا تھا۔ نون لیگ والوں نے "پیلی ٹیکسی" کہہ کر پکارا۔ اور اس کے بعد بھی کئی موقعوں پر اسی نام کے ساتھ ان کا تذکرہ کیا جاتا تھا۔ بینظیر نے ایک دفعہ اسمبلی میں کسی اعتراض کے جواب میں کہا کہ "مصروفیت کی وجہ سے میری ایک ٹانگ کراچی اور دوسری ٹانگ اسلام آباد میں ہوتی ھے تو اس پر ایک نون لیگی وزیر نے فقرہ کسا کہ "ملتان والوں کی تو پھر موج رہتی ہو گی"۔  یہ سن کر ن لیگ کے اراکین نے دل کھول کر ڈیسک بجائے اور بینظیر باقاعدہ آنسوؤں سے روتی ہوئی وہاں سے اٹھ کر اپنے چیمبر میں آ گئیں۔
بینظیر نے اپنے دور میں اتفاق فاؤنڈری کے سکریپ امپورٹ پر ڈیوٹی لگا دی۔ جواب میں جب نوازشریف کی حکومت آئی تو اس نے زرداری کو جیل میں ڈال دیا۔ بینظیر نے قومی اسمبلی میں کھڑے ہو کر کہا کہ نوازشریف کے بس میں ہو تو یہ میرے بچوں سے دودھ بھی چھین لے۔ جواب میں ن لیگ کے ایک وزیر نے کہا، بی بی تم نے نوازشریف کا لوہا پکڑا تھا، اب نوازشریف تمہارا دودھ پکڑ رہا ہے، گھبراؤ مت....
اس پر محترمہ کی کیا حالت ہوئی ہو گی، یہ آپ بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔
جناب زرداری صاحب شریف برادران کو چور، ڈاکو، لٹیرے، درندے، دھرتی کا ناسور اور رائیونڈ کا مجیب الرحمٰن کہا کرتے تھے۔ 2009 میں جب تحریک انصاف ایک چھوٹی پارٹی تھی تو ان دنوں شہباز شریف سرعام زرداری کا پیٹ پھاڑنے، سڑکوں پر گھسیٹنے اور الٹا لٹکانے کی دھمکیاں لگایا کرتے تھے۔
عمران خان کی سیاسی پوزیشن بہتر ہوتے ہی ان کے لئے جو القاب استعمال کئے جانے لگے، ان میں سے چند ایک میں یہاں لکھ دیتا ہوں۔ کوکینی، زانی، لونڈے باز، نشئی، بدکردار، نااہل، نالائق، پاگل، فتنہ، ناسور، یہودی ایجنٹ وغیرہ وغیرہ...
عمران خان کے جلسوں میں پارٹی ترانوں پر خواتین کے جھنڈے لہرانے کے لئے "مجرے" کا لفظ استعمال کیا گیا۔ ہماری ان بہو بیٹیوں کو "فاحشہ" اور "کنجریاں" تک بھی کہا گیا۔ آج ہمیں یہ بتایا جاتا ہے کہ سیاست میں بدزبانی کا کلچر عمران خان نے متعارف کروایا ہے۔ اس شخص کی وجہ سے ہماری سیاست آلودہ ہو چکی ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے پاکستانی تاریخ میں محترمہ بینظیر بھٹو کے بعد اگر کسی کی بدترین کردار کشی اور اس کے خلاف پروپیگنڈا کیا گیا ہے تو وہ عمران خان ہے۔ اور اس کے پیچھے کن لوگوں کا سب سے زیادہ ہاتھ ہے وہ اوپر پڑھ کر آپ کو اندازہ ہو ہی چکا ہو گا۔ اور آئندہ بھی جب تک عمران خان ان کی سیاست کے لئے خطرہ ہے، یہ لوگ یہی سب کچھ کرتے رہیں گے، کیونکہ پروپیگنڈا اس طرح کے مافیاز کا سب سے کارآمد ہتھیار ہوتا ہے۔
آخری بات یہ کہ میں نے یہ سب خود پر جبر کرکے آپ کو بتایا ہے۔ میں اس گندگی میں خود کو شامل نہیں کرنا چاہتا تھا، لیکن ہماری بھولی بھالی اور کمزور یادداشت کی مالک عوام کو حقیقت سے روشناس کرانا بھی ضروری تھا۔ اگر اس تحریر کو پڑھ کر آپ کو اچھا نہیں لگا، یا کسی کی دل آزاری ہوئی ہو تو میں ایک بار پھر معذرت خواہ ہوں۔
(منقول)

Post a Comment

If you have any doubts, please let me know

Previous Post Next Post